۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
حضرت خدیجه سلام الله علیها

حوزہ/ جناب خدیجہ وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں قرآن مجید کی رو سے سب سے پہلے ام المؤمنین ہونے کا شرف حاصل تھا  اس کے علاوہ ذاتی طور پر سورہ مبارکہ ضحی میں آپ کے ایثار و قربانی کا تذکرہ ہے ارشاد ہوتا ہے:’’وَ وَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ‘‘۔(سورہ الضحى:8)۔اے رسول اور ہم نے آپ کو تنگدست پایا تو آپ کو غنی بنادیا۔

انتخاب وترجمہ: مولانا سید حمیدالحسن زیدی، الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور

حوزہ نیوز ایجنسی
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا انتہائی با فضیلت خاتون ہیں آپکا نام نامی خدیجہ کنیت ام ہند تھی آپ کے والد ماجد خویلد ابن اسد اور والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت زایدۃ ابن اصم تھا۔(1)ان دونوں کا سلسلہ نسب آگے چل کر پیغمبر اسلام(ص) کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے۔(2) اور اس طرح آپ کی ذات گرامی حسب و نسب کے اعتبار اس لایق تھی کہ زینت خانہ پیغمبر(ص)بن سکے آپ کی ولادت ١٥سال قبل از عام الفیل اور ٦۸سال قبل از ہجرت ہوئی آپ نے ٦٥برس کی عمر میں وفات پائی اور مکہ کے مشہور قبرستان جنت المعلی میں سپرد لحد ہوئیں جہاں آج بھی آپ کی غربت زدہ قبر مطہر صاحبان معرفت کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔

جناب خدیجہ کی شادی
جناب خدیجہ پیغمبر اسلام(ص) سے خاندانی قرابتداری تو رکھتی ہی تھیں اس کے علاوہ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل سے آپ کے فضایل و کمالات سنے تھے اور علماء یہود و نصاری سے آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں جو خبریں ان تک پہونچی تھیں ان سب چیزوں کی بنا پر اپنے ذہن و دماغ میں جناب محمد مصطفی(ص) کو جگہ دے چکی تھیں اور دل ہی دل میں آپ پر ایمان لا چکی تھیں آپ کے قلب مبارک میں عشق پیغمبر(ص) کی جو تپش پیدا ہوچکی تھی سفر تجارت میں اپنے غلام میسرہ کے ذریعہ حضور(ص) کے اخلاق حمیدہ اور معجزات کو سن کر ان میں اور اضافہ ہوگیا یہاں تک کہ روایات میں ہے کہ آپ عشق رسول میں راتوں کو جاگتیں بلکہ حضور(ص) کے فراق میں آنسو بھی بہاتی تھیں ایک دن جناب خدیجہ نے اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل سے اپنی اس تڑپ کا تذکرہ کیا اور اپنی مراد تک پہونچنے کی سبیل دریافت کی ورقہ ابن نوفل جو ایک بڑے عیسائی عالم اور پیغمبر کے فضایل و کمالات سے آگاہ تھے انھوں نے جناب خدیجہ کو ایک دعا لکھ کر دی اور کہا کہ سونے سے پہلے اسے اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیں جناب خدیجہ تکیہ کے نیچے وہ دعا رکھ کے سو گئیں اور رات میں خواب میں اپنی مراد جناب رسالت مآب کی زیارت سے مشرف ہوئیں اور پھر شوق وصال میں اپنی کنیز نفیسہ یا بروایتے اپنی بہن کے ذریعہ پیغمبر کی خدمت میں باقاعدہ شادی کا پیغام بھجوایا۔(3)اور اس طرح اپنی خاص تدبیر کے ذریعہ بنی ہاشم کے چمکتے ہوئے آفتاب عالمتاب کو اپنے در دولت تک لانے میں کامیاب ہو گئیں روایات کے مطابق بارات میں خاندان بنی ہاشم کے جوان حضور اکرم(ص)کو اس طرح گھیرے میں لیکر چل رہےتھےجیسے ستاروں کے جھرمٹ میں چودھویں کا چاند۔ آخر ایک نورانی محفل میں جناب ابوطالب نے حمد و ثنائے الہی کے ساتھ صیغہ ہائے عقد جاری کئے۔ محفل عقد اپنے اختتام کو پہونچی تو یادگار عبداللہ نے اپنے عزیز چچا کے ساتھ اپنے سابقہ گھر کی طرف جانے کا ارادہ کیا یہ دیکھ کر جناب خدیجہ آگے بڑھیں اور انتہائی مؤدبانہ انداز میں حضور کا دامن پکڑ کر عرض کیا:’’سيدي! إلي بيتک فبيتي بيتک و أنا جاريتک‘‘۔اے میرے سیدو سردار اپنے گھر میں قیام فرمائیں اب میرا گھر آپ کا گھر ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں۔(4)اسطرح جناب حضور اکرم(ص) اور ام المؤمنین جناب خدیجہ کی مشترک زندگی کا آغاز ہوا۔

جناب خدیجہ کےالقاب
جناب خدیجہ اعلان اسلام سے پہلے ہی بہت سے محترمانہ القاب سے ملقب تھیں جیساکہ:
١-مبارکہ
انجیل میں جہاں پیغمبر اسلام(ص) کی بشارت کا تذکرہ ہے وہیں پر جناب خدیجہ کے مبارکہ ہونے اور جنت میں جناب مریم کے ساتھ ان کی ہم نشینی کا ذکر بھی ہے (نسله من مبارکة، وهي مونس أمک في الجنة) ان کی نسل مبارکہ سے ہوگی اور وہ جنت میں تمھاری ماں مونس ہمدم ہوں گی۔(5)
۲-طاہرہ
دور جاہلیت میں پاک دامن عورتوں کی تعداد بہت کم تھی اور سماج کی خرابیوں کی وجہ سے اکثر خواتین کا دامن کردار داغدار ہوتا تھا اس دور میں بھی جناب خدیجہ اپنی عفت اور پاکیزگی کی وجہ سے طاہرہ کے لقب سے ملقب تھیں جو آپ کے بلند مرتبہ اور منفرد شخصیت کی دلیل ہے۔
٣-سیدہ نساء
اس زمانے میں بھی جناب خدیجہ(س) کی شخصیت اتنی عظیم اور قابل احترام تھی کہ آپ کو سیدہ نساء (عورتوں کی سردار) کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔(6)

جناب خدیجہ قرآن و روایات کی روشنی میں
جیسا کہ ذکر کیا گیا جناب خدیجہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل اور دیگر علماء یہود و نصاری کے ذریعہ بیان کئے گئے حضور اکرم(ص) کے فضایل و کمالات اور آپ کی نبوت رسالت سے نہ صرف یہ کہ آگاہ تھیں بلکہ آپ پر ایمان بھی لا چکی تھیں۔(7)مولائے کائنات نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’جس وقت پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت کا نور چمکا اس کی روشنی سوائے جناب پیغمبر اسلام اور جناب خدیجہ کے گھر کے کسی اور گھر میں نہیں تھی اور میں ان میں تیسرا شخص تھا جو نور وحی رسالت کو دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا‘‘۔(8)
جناب خدیجہ اتنی بلند مرتبہ خاتون تھیں کہ پیغمبر اسلام(ص) آپ سے فرماتے تھے اے خدیجہ خداوند عالم روزانہ کئی مرتبہ تمھاری وجہ سے فرشتوں پر فخر و مباحات کرتا ہے۔(9)

جناب خدیجہ قرآن مجید کی نظر میں
جناب خدیجہ وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں قرآن مجید کی رو سے سب سے پہلے ام المؤمنین ہونے کا شرف حاصل تھا اس کے علاوہ ذاتی طور پر سورہ مبارکہ ضحی میں آپ کے ایثار و قربانی کا تذکرہ ہے ارشاد ہوتا ہے:’’وَ وَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ‘‘۔(سورہ الضحى:8)۔(10)اے رسول اور ہم نے آپ کو تنگدست پایا تو آپ کو غنی بنادیا۔(11)
پیغمبر اسلام(ص) سے شادي سے پہلے جناب خدیجہ مکہ کےبہت بڑے کارو بار کی مالک تھیں آپ کے عظیم کاروان تجارت میں اسی ہزار اونٹ تھے جن کے ذریعہ شام یمن مصر وغیرہ کی طرف برابر آپ کا سامان تجارت جاتا رہتا تھا۔شادی کے بعد آپ نے اپنا سارا مال اور ساری دولت پیغمبر(ص) کے قدموں میں ڈال دی تاکہ اسلام کی نشو و نما کے کام آسکے۔(12)جب کہ اس کے بعد آپ نے خود انتہائی تنگ دستی کی زندگی بسر کی یہاں تک کے شعب ابوطالب میں بائیکاٹ کے دنوں کی سختیوں میں کئی کئی فاقوں میں صرف درخت کے پتوں پر گزارہ کیا جس کے نتیجہ میں آپ کی صحت بھی خراب ہوگئی جو آپ کی وفات کا سبب بنی۔
قران مجید نے اسی ایثار و قربانی کا قصیدہ پڑھا ہے اور سورہ ضحی میں خداوندعالم نے جناب خدیجہ کے اس عمل کو اپنا عمل قرار دیا ہے:’’وَ وَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ‘‘۔(سورہ الضحى:8)

جناب خدیجہ روایات کی روشنی میں
جناب خدیجہ(س) کی فضایل کے بارے میں بہت سی شیعہ اور سنی کتب میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں جن میں سے چند یہاں پر ذکر کی جارہی ہیں:
١-پیغمبر اسلام(ص) ارشاد فرماتے ہیں:کہ جبرئیل امین نے مجھ سے کہا کہ جب خدیجہ آپ کے پاس آئیں تو خدا کی طرف سے میری طرف سے اور آپ اپنی طرف سے ان پر درود و سلام بھیجیں اور انھیں جنت میں ایک ایسے گھر کی بشارت دیں جو زمرد کا ہو اور اس میں کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ ہو۔(13)
۲-امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کہ کائنات کی عورتوں کی سردار چار خواتین ہیں:١۔خدیجہ بنت خویلد۔ ۲۔فاطمہ بنت محمد(س)۔ ٣۔آسیہ بنت مزاحم۔ ۴۔مریم بنت عمران۔(14)
٣-خدیجہ پرخداکا سلام: ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ جب مجھے شب معراج عرش پر سیر کے لئے لے جایا گیا تو واپسی کےوقت جبرئیل سے میں نے دریافت کیا کہ کیا تمھاری کوئی حاجت ہے انھوں نے کہا کہ ہاں جب جناب خدیجہ کی خدمت میں پہونچیں تو انھیں خدا کا اور میرا سلام پہونچادیں جب پیغمبر اسلام(ص) نے سلام پہونچایا تو جناب خدیجہ نے ارشاد فرمایا:’’ان الله هو السلام ، وفيه السلام ، اليه السلام ، وعلي جبرئيل السلام ‘‘۔ بیشک خدا ہی سلام ہے اس میں سلامتی ہے اسی کی طرف سلام کی باز گشت ہے اور جبرئیل پر سلام ہے۔(15)
۴-کتاب خصائص فاطمیہ میں ذکر ہوا ہے کہ جب جناب خدیجہ کی وفات ہوگئی تو فرشتے خداوند عالم کی طرف سے مخصوص کفن لیکر آئے جو ایک طرف عظمت جناب خدیجہ کا اعلان تھا تو دوسری طرف پیغبر اسلام(ص) کی تسلی کا سامان۔پیغمبر اسلام نےجناب خدیجہ کو خدا طرف سے بھیجا ہوا کفن پہنایا اور اپنے اقرباء کے ساتھ قبرستان لے گئے اوراپنی مادر گرامی جناب آمنہ کی قبر کے پاس قبر تیار کرائی پھر قبر میں کچھ دیر لیٹے اور اسکے بعد جناب خدیجہ(س) کو سپرد لحد کیا ۔(16)تاریخ شاہد ہے کہ جب تک آپ زندہ رہے جناب خدیجہ کو برابر یاد کرتے رہے۔
بار الہا اس باعظمت خاتون اور اس کی باعظمت بیٹی کے طفیل میں ہمارےگناہوں کی مغفرت فرماکر ہمیں دونوں جہان کی سعادتوں سے بہرہ مند فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:
1-علی اکبر، بابا زاده، سیمای زنان در قرآن، قم، انتشارات لوح محفوظ،طبع دوم ،1378،ص23۔2- ر.ک، شیخ عباس، قمی، سفینه البحار، ج1،ص379
3-رک:محمد تقی، مجلسی: بحار الانوار، بیروت، مؤسسه الوفاء، 1404هجری قمری، ج16، ص23۔
4-رک:عباس، قمی : سفینة البحار،ج1،ص379
5 - رک : محمدتقی، مجلسی: همان، ص352،ج2
6-رک:ذبیح الله، محلاّتی: ریاحین الشریعه، تهران، دارالکتب الاسالمیة، ج2،ص207،
7- علی اکبر، بابا زاده : سیمای زنان درقرآن ، ص27
8- رک:نهج البلاغه فیض الاسلام، ص811
9- رک :علی اکبر،بابا زاده، تحلیل سیده فاطمه زهرا، قم، انتشارات دانش وادب، چاپ ششم، 1382،ص37
10- رک:محمد، محمدی اشتهاردی،ص171
11- سوره ضحی (93)، آیه 8
12- علی اکبر، بابا زاده : سیمای زنان در قرآن ، ص23
13- رک: محمدتقی، مجلسی :همان ، ج16،ص8.
14- رک:عبدالحمید ، معتزلی: شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدیدمعتزلی، قم بی نا، 1404،هجری قمری،ج10،ص266
15- رک: محمدتقی مجلسی، ج16،ص7
16- محمد، محمدی اشتهاردی، 264

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .